جانے کیوں بعض رشتوں میں کڑواہٹ بھری رہتی ہے۔ یہ کڑواہٹ کبھی تو اپنی ہی وجہ سے بھر جاتی ہے اور کبھی دوسرے بھرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ نازک رشتے مثلاً ساس، بہو ، نند ،بھاوج اور میاں بیوی کے ہوتے ہیں اگر ہر معاملے میں عقلمندی اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ نازک رشتے خونی رشتوں سے بھی زیادہ پیارے لگنے لگتے ہیں۔ ان رشتوں میں خرابیاں چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی پڑ جاتی ہیں اور سنگین صورتحال اختیار کر لیتی ہیں اور معاملہ طلاق علیحدگی اور الگ گھر تک پہنچ جاتا ہے اور بعض اوقات شوہر کسی ایک جانب جھکاﺅ کر دیتا ہے تو دوسرا فریق ناراض ہو جاتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی انسان جو خلاﺅں میں گھوم رہا ہے۔ اتنی عقل سلیم کا مالک ہوتے ہوئے ان معاملات میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا یہ کسی جنگ کو جیتنے سے زیادہ سنگین معاملہ ہے؟ بات صرف اپنی غلطی کے اعتراف کی ہے اگر انسان غلطی کا اعتراف کرنا سیکھ جائے تو اسی فیصد معاملات سلجھ سکتے ہیں مثلاً بعض اوقات اس بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے کہ کھانا ٹائم پر نہیں بنا اب بیوی کہتی ہے کہ میں مشین ہوں جو سارے کام بھی کروں اور ٹائم پر کھانا بھی بناﺅں پھر بچوں کی دیکھ بھال میں کون میرا ساتھ دیتا ہے۔ آپ تو بس حکم چلاتے رہتے ہیں۔ یہ بات بڑھتے بڑھتے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور بیچ میں ساس نند کی دخل اندازی بہو کو اور گرم کردیتی ہے اگر شوہر کے وقت پر کھانا نہ بننے کے جواب میں بیوی یہ کہے کہ غلطی ہوگئی وقت کا احساس نہیں ہوا یا میں مصروف تھی، کہہ دے تو بات لمبی ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ساس اگر کوئی کام کر رہی ہے تو بہو کا حق بنتا ہے کہ وہ کہے امی لایئے میں کر دوں۔ آپ نے ساری عمر کام کیا اب ہمیں کام کا موقع دیں تو ساس کو بھی بہو بیٹی لگے گی اور بہو کو بھی اچھا لگے گا۔ بہو کھانا بناتی ہے۔ کھانے میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو بجائے ڈانٹ ڈپٹ کے پیار سے کہے بیٹی نمک کم ہے یا مرچ تیز ہے تو جواب میں بہو بھی پیار سے غلطی مانتے ہوئے یہ کہے کہ ذہن میں نہیں رہا یا کچھ بھی پیار سے کہہ دے لیکن اگر بہو لال پیلی ہو کر یہ کہنے لگے کہ آپ خود اپنا کھانا بنا لیا کریں مجھے تو ایسا ہی بنانا آتا ہے تو ساس کو وہ بیٹی نہیں لگے گی جو ماں کی بات ہنس کر سن لے، بہو ہی لگے گی جو کبھی بیٹی نہیں بن سکتی۔ اس طرح کے اور بھی واقعات زندگی میں رونما ہوتے ہیںجس میں غلطی اپنی ہی ہوتی ہے مگر ماننے سے انکاری ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اگر والدین بیٹی کو اچھی تربیت، اچھے طور طریقے سکھا کر رخصت کریں تو لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آتی اور بیٹی ہر رشتے کو نبھاتی ہے چاہے وہ بیوی کا ہو، بہو کا ہو، بھابی کا ہو یا دیورانی جیٹھانی کا۔ یہ ضروری نہیں کہ اچھے خاندان اور اچھے جہیز سے ہی بہو سسرال کے دل جیت سکتی ہے بلکہ اچھے طور طریقوں سے وہ سسرال میں نام پیدا کر لیتی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں ساس بہو کے رشتے کیلئے طرح طرح کی سوچیں ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے، کوئی کہتا ہے ماں بیٹے کی محبت کو تقسیم نہیں کر سکتی، کوئی بہو کو کہتا ہے کہ یہ جھگڑے پیدا کرنے کی ماہر ہے۔ آخر لوگ گھروں کے معاملات دوسروں تک کیوں پہنچاتے ہیں؟ دوسرے تماشا دیکھتے ہیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ بات بہو کے میکے میں نہ جائے کہ وہ اصل حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ قصور بیٹی کے سسرال والوں کا ہے یا بیٹی کا ہے۔ وہ بیٹی کے سسرال کو ہی برا بھلا کہیں گے اور اپنی بیٹی کو لے جائیں گے اور اس کے سسرال والوں کو مجبور کریں گے کہ گھٹنے ٹیکتے ہوئے آئیں اور اپنی بہو کو لے جائیں۔ اس کا ردعمل یہ نکلے گا کہ وہی بہو سسرال میں بیٹی کی بجائے بہو ہی کہلائے گی اگر گھر کے معاملات گھر میں ہی نبٹا لئے جائیں تو رشتے بھی برقرار رہتے ہیں اور زندگی بھی خوشگوار رہتی ہے۔ سسرال والوں کو چاہئے کہ بہو کے جہیز کو لیکر جھگڑا نہ کریں ۔کم جہیز ہے یا نکما ہے، یہ باتیں بہو کو آپ سے دور کر سکتی ہیں بلکہ سوچئے کہ خاندانی بہو نصیب والوں کو ملتی ہے اور زندگی کی خوشیاں سازوسامان سے یا دھن دولت سے نہیں ملتیں بلکہ لب ولہجے ،طور طریقوں، آداب واطوار کے حسن سے ملتی ہیں۔ گھر کے بڑوں کا حق ہے کہ بہو اور بیٹی میں فرق روانہ رکھیں بلکہ بہو کو بیٹی کا درجہ دیں اور محبت کی برابر تقسیم کریں۔ بہو بیٹی کا حق ہے کہ اگر غلطی ان کی نکلے تو ان کا مسئلہ نہ بنائیں، معافی مانگیں اور بہو کی غلطی ہے تو وہ شرمندگی کا اظہار کرے۔ بیٹی کی غلطی ہے تو وہ غلطی کا اعتراف کرے اور معافی مانگے۔ اس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونگے۔
ایک اہم مسئلہ جو تقریباً بیٹیوں کے والدین کو لاحق ہے کہ ان کی دو، تین، یا پانچ بیٹیاں ہیں مگر وہ اپنے اپنے سسرال میں خوش نہیں ہیں کیا وجہ ہے کہ سب الگ الگ گھروں میں ہیں مگر سب کو یہی مسئلہ ہے کہ سسرال والے اچھے نہیں ہیں والدین بھی بجائے یہ دیکھنے کے کہ غلطی ان کی اپنی بیٹیوں کی کتنی ہے؟ سسرالی رشتے داروں کی کتنی ہے ؟ قصور سسرالی رشتے داروں کا نکالتے ہیں حالانکہ کچھ ان کے اپنے ہی خاندانی لوگ ہیں وہ بھی غلط کہلواتے ہیں اگر معاملات کو ٹھنڈے دماغ سے دیکھئے تو آپ ان معاملات کو سلجھا سکتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو سمجھایئے۔ انہیں بتایئے کہ جس طرح ہم تمہارے والدین ہیں اسی طرح ساس سسر تمہارے والدین ہیں، جس طرح ہمارے بیٹے بیٹیاں تمہارے بھائی بہن ہیں اسی طرح دیور، جیٹھ، نندیں تمہارے بھائی بہن ہیں، جس طرح ہم تمہیں ڈانٹ سکتے ہیں وہ بھی تمہیں ڈانٹ سکتے ہیں، جس طرح تمہارے بھائی بہن تم سے روٹھ جاتے تھے تو تم منا لیتی تھی اسی طرح تمہاری نندیں ، تمہارے دیور بھی تم سے روٹھ سکتے ہیں، تم انہیں بھی منایا کرو۔ یہ باتیں ایک طرف تو بیٹی کو سسرال میں رشتوں کی پہچان سکھاتی ہیں تو دوسری طرف وہ بیٹی سسرال میں بیٹی ہی رہتی ہے بہو نہیں بنتی۔ خدارا ان رشتوں میں نفرت بھی ہم ہی بھرتے ہیں اور محبت بھی ہم ہی بھرتے ہیں اب سوچئے کہ زندگی جنت بنانا چاہتے ہیں یا جہنم؟
والدین کو چاہئے کہ بیٹیوں کو اچھی تربیت دیں تاکہ وہ آپ کیلئے بوجھ نہ بنیں۔ شاید اسی لئے لوگ بیٹیوں کو بوجھ کہتے ہیں۔ شادی سے پہلے بھی والدین انہیں لوگوں کی گندی نظروں سے بچاتے ہیں اور شادی کے بعد انہیں سسرال میں بسانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر بات نہ بنے تو وہ قسمت کا رونا روتے ہیں۔بہو جو ایک خاندان کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے اس کے اختیار میں ہے کہ وہ چاہے تو شوہر کو اس کے عزیزوں سے جوڑے رکھے اور چاہے تو ڑ ڈالے اگر وہ شوہر پر حق جما سکتی ہے تو شوہر پہلے ایک ماں باپ کا بیٹا، بہن بھائیوں کا بھائی ہے اسکے بعد اس کا شوہر ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 840
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں